ہونٹ ہیں ان کے گلاب سے بڑھ کر
حسن ہے ان کا ماہتاب سے بڑھ کر
معصوم سے بن کے بیٹھے ہیں جو
شوخیاں ہیں ان کی عذاب سے بڑھ کر
ادا سے ماورا جو لگ رہے ہیں آج
ادائیں ہیں ان کی، شباب سے بڑھ کر
گزری ہے زندگی جو ان کے بغیر
لگتی ہے اب تو عذاب سے بڑھ کر
میرے سامنے میرے ہی گھر میں
لگ رہے ہیں وُہ نواب سے بڑھ کر
جاوید آج بتا دو اُن کو راز کی یہ بات
دل میں نہیں کوئی جناب سے بڑھ کر