ہونٹوں پہ لئے پیار کے جذبات سجا کر
تتلی کوئی نکلی ہے یہ خوشبو سے نہا کر
آنے لگی پھولوں پہ نئی ایک جوانی
کھلتے رہیں محفل میں یہی ایک دعا کر
بکھری ہوئی پھرتی ہوں ، یہاں کوئی نہیں ہے
اے مولا مجھے ایک ، مرا اپنا عطا کر
اب عدل یا انصاف کی امید نہیں ہے
اس شہر کے حاکم سے ذرا دور رہا کر
جب آنکھ کی تحویل میں آنسو ہی نہیں ہیں
کیا لینا ہے پھر دردِ محبت کو بہا کر
چمکے ہیں مرے ساتھ بجھی شب کے ستارے
نکلوں جو اگر چاند کی کرنوں سے نہا کر