اسکے عارض سے جھلکتا وہ حیاء خیز وقار
اسکے ہونٹوں کے گلابوں کا وہ پاکیزہ نکھار
جھیل سی آنکھوں میں کھلتے ہوئے معصوم کنول
جنمیں انگڑائیاں لیتا ہوا شرمیلا خمار
اسکی پلکوں پہ مچلتا ہوا حیراں کاجل
منتظر ہے کوئی چاہت سے پکارے اک بار
میں اسے کیوں نہ بہاروں کا پیمبر لکھوں
اسکی آمد سے صباء لاتی ہے گلشن میں بہار
اسکی نازک سی یہ معصوم سی خواہش ہے اشہر
کوئی اسکو بھی کرئے ٹوٹ کے دنیا میں پیار