ہٹا دو تم ان آنکھوں سے یہ جو کاجل کا پہرا ہے
نہ جانے کب سے اک قطرہ اسی سرحد پہ ٹھہرا ہے
تصور میں اسے جب دیکھتا ہوں، ڈوب جاتا ہوں
سمندر تیری آنکھوں کا حقیقت میں جو گہرا ہے
میں تیری یاد کو کیسے بھلا خود سے الگ کردوں
ہمیشہ سامنے میرے حسیں تیرا ہی چہرا ہے
کسی سے عدل کی امید، کوئی کس طرح رکھے
سنے گا کون اب فریاد جب منصف ہی بہرا ہے
اتر جائے گا تیرے ہاتھ سے رنگِ حنا لیکن
مٹے گا نہ کبھی دل سے وفا کا نقش گہرا ہے
تمہارے بعد اے جاناں کہوں کیا حال ہے میرا
ہر اک منظر تھما سا اور لگے یہ وقت ٹھہرا ہے