اب جا کے جانا کہ ہاتھ کی لکیریں بدل جاتی ہے
ستاروں کے ساتھ ہی تقدیریں بدل جاتی ہے
فریم دل کا ہو یا شیشے کا
کچھ سالوں بعد تصویریں بدل جاتی ہے
عشق کے جیل خانوں سے کوئی آزاد نہیں ہوتا
بس کبھی کبھار زنجیریں بدل جاتی ہے
نام کے ہی عاشق جو عشق کرتے ہیں نہال
آج کل رانجھے بدل جاتے ہیں ، ہیریں بدل جاتی ہے