ہیں ضبط کیے چاہتِ ناکام کے ساغر
ہیں تلخی و غم گردش ایام کے ساغر
دیکھا جو ترے ہونٹوں پہ آیا ہے تبسم
اس دم سے کہاں ملتے ہیں آرام کے ساغر
چھپتی ہے کہاں لاکھ چھپانے سے حقیقت
پیتے ہیں شب و روز ترے نام کے ساغر
تقدیر اسی موڑ پہ لے آئی ہے پھر سے
پینا ہی پڑا زہر مجھے تھام کے ساغر
ضیغم ہے کہاں ثانی ترا اہلِ سخن میں
تنقید سے بے داغ ہیں الہام کے ساغر