ہیں نقش پا کندہ جس پر تیرے وہ رہگزر میں ہوں
یوں اس اعتبار سے تجھ سے قریب تر میں ہوں
بہت خجل ہوے یہ جانکر میرے ہم نو ا
کہ اب بھی تیری نگاہوں میں معتبر میں ہوں
گو چھین لی ہے خزاں نے شادابیِ تن میری
آگ لگی رقیبوں کو کہ پھر جلوہ حسن میں ہوں
ہے تیرے ہی دم سے وابستہ میرا ماضی
اس گزرے ہوے کل کی حسین یاد میں ہوں
گھڑی دو گھڑی جسکے ساۓ تلےتم بیٹھے تھے کبھی
وہ شجِر تنہا میں ہوں وفا کی ادھوری داستاں میں ہوں