ہے شرف حاصل وطن ہونے کا جس کو شاد کا
تھا یگانہ بھی تو شاعر اُس عظیم آباد کا
طرز اپنایا سُخن میں جب بھی میں نے شاد کا
میرے شعروں پر گمُاں ٹھہرا کسی اُستاد کا
یا الہیٰ ! شعر میں ایسی فصاحت دے، کہ میں
نام روشن کرسکوُں اپنے سبھی اجداد کا
دِل بدل ڈالا ہے اپنا اُس نے پتّھر سے تو پھر
خاک حاصِل ہو نتیجہ اب کسی فریاد کا
تیری نِسبت سے بَھلا کب چین لینے دے مجھے
نقش میرے دِل پہ ہے ہر ایک لمحہ یاد کا
میرے مرنے کا اثر یُوں بھی ہُوا احباب پر
" شور ہے اغیار کے گھر میں مُبارکباد کا "
جب تعلّق ہی نہیں ہم سے رہا اُن کا کبھی
تو کہَیں موجب اُنھیں کیوں اِس دلِ برباد کا
ہرخوشی سے بڑھ کےاُن کی ہی خوشی مطلوُب ہے
کیا گِلہ اُن سے ہو پھر، اُن کی کسی بیداد کا
ہجرتوں سے بھی کہیں پایا نہ ہو جس نے سُکوں
کیا علاجِ غم خلِش ہو اُس دلِ ناشاد کا