ہے میرا دوست مگر سچ ہے میرا پیار نہیں
بہل تو جاتا ہوں اس سے مجھے قرار نہیں
کھلے ہیں پھول تو دل کے کسی ویرانے میں
اگرچہ چھایا کہیں موسم بہار نہیں
تھا منتظر میں سدا تیری آہٹوں کا مگر
جدائی اتنی بڑھی تیرا انتظار نہیں
کیے تھے وعدے مگر کوئی بھی وفا نہ ہوا
تمھاری بات پہ اب مجھ کو اعتبار نہیں
تلاش کرتے ہیں گزری ہوئی بہاروں کو
چمن میں پھول تو کیا دیکھنے کو خار نہیں
تری گلی میں نہ جاؤں گا کون کہتا ہے
گماں کسے ہے کہ مرنے کو میں تیار نہیں
غریب شہر تو گمنام مر گیا زاہد
دیا جلانے کو اس کا بنا مزار نہیں