دنیا سے سروکار نہ اپنی خبر مجھے
ہے یاد فقط پیار کی پہلی نظر مجھے
شاید میں انکی ذات کا بچھڑا وجود ہوں
یوں مل رہے آج بھی ویراں شجر مجھے
خالی ہیں جسکے ہاتھ مرے خواب کی صورت
چاہا تھا کبھی اس نے بہت ٹوٹ کر مجھے
دل ہے کسی بھی طور بہلنے سے گریزاں
وہ اک خیال لے گیا جانے کدھر مجھے
منزل ہے اسکی اور مگر اتنا یقیں ہے
سوچے گا بہت دیر میرا ہمسفر مجھے
میں اشک کی صورت کہیں قدموں میں گرا تھا
پلکوں پہ ڈھونڈتی رہی باد سحر مجھے
طوفاں بن کے ٹوٹ پڑی سرپھری ہوا
وہ نقش کر رہا تھا ابھی ریت پر مجھے
ممکن ہے تری تجھ سے ملاقات کرا دوں
فرصت ملے تو سوچ کبھی ڈوب کر مجھے
تھاما ہے ترا ہاتھ میرے ذوق جنوں نے
لرزیدہ کر نہ پائے گا اب کوئی ڈر مجھے
میں زندگی کے تھوڑے حسابات چکا لوں
اے موت ساتھ لے کے ہی جانا-ٹھہر ! مجھے