بے ثمر شجر کے سائے تلے
جلا رکھے ہیں تری یادوں کے دئے
پا برہنہ ہیں خوابوں کے سفر میں
الجھیں ہیں تری زلفوں کے سحر میں
امید کے چراغوں کو روشن کر کے
تصور میں ترے درشن کر کے
سوچ رہیں ہیں اب کیا ہوگا
کیا میری یادوں سے کبھی جدا ہوگا
کیا ممکن ہے کبھی ایسا ہونا
پھول سے خوشبو کا جدا ہونا