جی ہے کہ اب لگتا نہیں
چاہ کر بھی خوش ہوتا نہیں
رونق و محفل اب کس کام کی
تیرا چہرہ اب نظر آتا نہیں
گزرتے نہیں تھے تیری یاد بن
دن و رات کا پتہ پاتا نہیں
عجب سی خاموشی ہے دونوں طرف
سناٹا ہے کہ کہیں جاتا نہیں
کیے تھے جو احسان تم نے مجھ پہ
مجھ تو وہ اب یاد دلاتا نہیں
سنا ہے تو مصروف ہو گیا آجکل
اس لیے عیسی تجھے اب یاد آتا نہیں