یاد ان کی آ ہی جاتی ہے
زخم جگر سہلا ہی جاتی ہے
کوئی اور ہمیں ستائے کیوں
گھڑی ہجر کی آ ہی جاتی ہے
وہ مدتوں سے یہاں نہیں آیا
دور تلک سنسان راہ ہی جاتی ہے
پھول کھلے ہیں دور گلشن میں
بوئے گل بتا ہی جاتی ہے
ہارنے والے ہم نہیں لیکن
کیوں دنیا آزما ہی جاتی ہے
بھلے پکاروں اسے وحشت میں
لب پہ دعا آ ہی جاتی ہے
وقت تیرا بھی آئے گا حبیب
مشکل پس مشکل آ ہی جاتی ہے