کبھی جو برسات ہوئی تو یاد تم آ ئے
چاندنی رات ہوئی تو یاد تم آئے
برسوں سے بچھڑے دو پنچی ملے شاخ پے
دونوں کی ملاقات ہوئی تو یاد تم آئے
دوستوں کے در میان اکثر تیرا ذکر کیا
کل پھر تیری بات ہوئی تو یاد تم آئے
ملے تھے جب تم نے گرتے گرتے سنبھالاں مجھے
پھر سے ٹھوکر کھائی تو یاد تم آئے
میں اکثر تیرے نام پے شعر لکھتا تھا
محفل میں غزل سنائی تو یاد تم آئے
سانسوں کی کومل ڈوری باندھی تم سے نہا ل نے
آج سانس رُکنے پے آئی تو یاد تم آئے