یاد کی راکھ میں جلتے ہوئے آثار آئے
چشمِ نم ناک لے کر دل کے یہ آزار آئے
چاند نکلا تو گزرتی ہوئی شب یاد آئی
پھر تری یاد کے جھونکے ہمیں بیدار آئے
دل نے سوچا تھا کہ کچھ وقت کو تنہا رہ لیں
پھر ترے در سے پلٹتے ہوئے لاچار آئے
بات لب پر نہ گئی، آنکھ نے سب کچھ کہا بھی
ہم تو خاموش تھے، پر لوگ مگر زار آئے
دھوپ میں چل کے بہت دور تلک ہم پہنچے
اور سائے بھی وہاں تک ہمیں تب ہار آئے
آئنہ بن کے بھی ہم چپ رہے ہر چہرے پر
کتنے چہروں پہ ہے دکھ جیسے کہ تلوار آئے
اب جو حسرت نے کہا دل کے چھپے راز سبھی
مسکرا کر وہ گلے ملنے کو تیار آئے