جب وہ گیا چھوڑ کے مجھے تن من سارا گھائل تھا
یاد ہے مجھے دن جمعرات، تاریخ ٢٤ ماہ اپریل تھا
پھر میں نہ آغاز نئے سفر کا کر سکا آج تک
وہ جا کے بھی مری راہوں میں سدا حائل تھا
اب کہتا ہے وہ کہ تم اک معمولی سے ہو بس
کل تک وہ فرد مری سوچ کا یارو قائل تھا
میں نے کہا محبت ہی نہ کرتے اگر جانا تھا
مسکراتے ہوئے بولا محبت تو ترے ساتھ چہل تھا
دن کو ہجر کی گرمی نے ارمان جلائے مرے
رات کو غم کی سردی میں دل دہل تھا
بربادی کا سانحہ میں اب کیسے سنائوں نہال
دل میں رہنے والا مری بربادی میں دخائل تھا