تیری ذات سے کبھی میں کنارا نہ کر سکا
اجڑے ھوئے دیار کو سہارا نہ کر سکا
جو لمحے تھے جدائی کے آنکھوں میں بس گئے
سمندر تھا بے شمار یوں نظارہ نہ کر سکا
وہ رات کی تنہائی میں سلگتے ھوئے کچھ خواب
تصویر تھی بے بسی کی گزارا نہ کر سکا
بہلاؤے کو تیری یادوں کا تسلسل ھے بے شمار
محبت جو بن گئی تھی جرم دوبارہ نہ کر سکا