یادوں کی رات سہانی کب ختم ہوتی ہے
اپنی یہ حالت الہامی کب ختم ہوتی ہے
کوئی پھول بھیجتا ہے تو کوئی اصول اپنے
جہاں دستوُر کی جاودانی کب ختم ہوتی ہے
اُس نے خود سجاکر آنکھ میں نمی جو ڈالی
دیکھئے کوچہ گردوں کی کہانی کب ختم ہوتی ہے
شب سے تھک کر تو تسکین کو سوچا مگر
انہیں خوابوں کی نگہبانی کب ختم ہوتی ہے
مَرکے بھی مسافر کو کہیں مات نہ آئی
ان نینوں کی سلامی کب ختم ہوتی ہے
جہاں چاہ نہیں وہاں راہ نہیں سنتوشؔ
ان حسرتوں کی غلامی کب ختم ہوتی ہے