یادوں کی دھوپ میں بکھر جاؤں گا
تیری اسی بےرخی سے مرجاؤں گا
چاہت کے سمندر میں طغیانی ہے
ڈوبا تو ساحل سے اُتر جاؤں گا
ٹوٹا ہوا سپنا ہوں تعبیر سے دور
آئینے سے بھی میں مکر جاؤں گا
قلبِ ویران کی صدا کہتی ہے
اک دن تیری راہ میں مر جاؤں گا
احساس کی راکھ بھی اڑی جاتی ہے
میں شعلۂ غم بن کے نکھر جاؤں گا
جب نیند مری ہجر میں چھن سی گئی ہے
تب جاگتی آنکھ سے گزر جاؤں گا
عادلؔ اس کی یاد کا یہ عالم ہے
میں اس کے خیال سے سنور جاؤں گا