آئی نہ میسر مجھے اک کٹیا زمیں پر
دروازے کھلے سینکڑوں اس ماہ جبیں پر
کیسے کہوں اب بھی کوئی دے گا مجھے دھوکہ
لکھا تو نہیں ہوتا کسی کی بھی جبیں پر
فطرت میں کبھی اس کی وفا ہم نے نہ دیکھی
اس کو نہ بھروسہ تھا کبھی میرے یقیں پر
کہدو اسے وعدوں کو نبھانے کے لیئے وہ
چھوڑا تھا جہاں آج بھی بیٹھا ہے وہیں پر
کہتا ہے مری ہر شے سے نفرت ہے اسے اب
لکھتا ہے وہ اشعار بھی میری ہی زمیں پر