یقین وعدہ نہیں تاب انتظار نہیں
Poet: اختر شیرانی By: Asher, Swatیقین وعدہ نہیں تاب انتظار نہیں
کسی طرح بھی دل زار کو قرار نہیں
شبوں کو خواب نہیں خواب کو قرار نہیں
کہ زیب دوش وہ گیسوئے مشکبار نہیں
کلی کلی میں سمائی ہے نکہت سلمیٰ
شمیم حور ہے یہ بوئے نو بہار نہیں
کہاں کہاں نہ ہوئے ماہ رو جدا مجھ سے
کہاں کہاں مری امید کا مزار نہیں
غموں کی فصل ہمیشہ رہی تر و تازہ
یہ وہ خزاں ہے کہ شرمندۂ بہار نہیں
بہار آئی ہے ایسے میں تم بھی آ جاؤ
کہ زندگی کا برنگ گل اعتبار نہیں
کسی کی زلف پریشاں کا سایۂ رقصاں ہے
فضا میں بال فشاں ابر نو بہار نہیں
ستارہ وار وہ پہلو میں آ گئے شب کو
سحر سے کہہ دو کہ محفل میں آج بار نہیں
گل فسردہ بھی اک طرفہ حسن رکھتا ہے
خزاں یہ ہے تو مجھے حسرت بہار نہیں
ہر ایک جام پہ یہ نغمۂ حزیں ساقی
کہ اس جوانی فانی کا اعتبار نہیں
خدا نے بخش دیئے میرے دل کو غم اتنے
کہ اب میں اپنے گناہوں پہ شرمسار نہیں
چمن کی چاندنی راتیں ہیں کس قدر ویراں
کہ اس بہار میں وہ ماہ نو بہار نہیں
شریک سوز ہیں پروانے شمع کے اخترؔ
ہمارے دل کا مگر کوئی غم گسار نہیں
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






