یونہی چلتے چلتے ، شام ہو جائے گی
جو گزر رہی ہے زندگی، تمام ہو جائے گی
تیری میت کو کاندھا دیں گے، کچھ وقت کے لیے
پھر تیری ہستی، سدا گمنام ہو جائے گی
وہ دوست جو تجھ پھ ، چھڑکتے تھے جاں
ان کو ساقی کی ضرورت سرشام ہو جائے گی
تم تو آرام کی نیند، سو جاؤ گے ناصر
زندگی مفت میں، بدنام ہو جائے گی