بڑے خموش سے پھولوں کے پاس بیٹھے ہیں
یوں آپ کس لیے اتنے اداس بیٹھے ہیں
ملی نہ جن کو محبت ، نہ اک خوشی بھی کبھی
بنے ہوئے وہی تصویر یاس بیٹھے ہیں
ہماری بزم تو آہوں کی بزم ہی ٹھہری
وہ قہقہوں کی فضا میں اداس بیٹھے ہیں
کوئی تو معجزہ بدلے گا مفلسوں کے حالات
لگائے دل کو یہی ایک آس بیٹھے ہیں
امیر شہر کے تن پہ تو ریشمی کپڑ ے
غریب پہنے غموں کا لباس بیٹھے ہیں
سنائیں بزم میں بے عیب شاعری زاہد
کہ اس ہنر سے سبھی روشناس بیٹھے ہیں