یوں بچھڑا کہ اجنبی کر گیا وہ
دنیاے دل میں تیرگی کر گیا وہ
یہ کیسا ہے دستور موت سے بچاو کا
کہ موت کے ڈر سے خود کشی کر گیا وہ
سنا تھا ایک خاصی عمر ہے انسان کی
مگر اس سے گزرتے کتنی جلدی کر گیا وہ
محبت کی آڑ لے کر ایک بار پھر
شاد تم سے دل لگی کر گیا وہ