تیرے بنا بھی گرچہ گزرتی چلی گئ
یوں بکھری زندگی کہ بکھرتی چلی گئ
کیسا طلسم تھا ترے نقش و نگار کا
تصو یر سیدھی دل میں اترتی چلی گئ
ہم نے تو صرف پیار سے پھیری تھیں انگلاں
زلف سیاہ خود ہی سنورتی چلی گئ
اس کے بغیر جیسے خلاؤں میں ہو وجود
جس پر ٹکا تھا میں وہی دھرتی چلی گئ
مظلوم ہر سوال پہ خاموش ہی رہا
تصویر درد خود ہی ابھرتی چلی گئ
کوشش ہوئ ہزار کہ سیرت بگاڑ د یں
تیری شبیہہ اور نکھرتی چلی گئ
تنقید کا نشانہ بنیں غزلیں اس قدر
خود شاعری حسن کی سدھرتی چلی گئی