یوں بھی نہیں کہ شام و سحر انتظار تھا
کہتے نہیں تھے منہ سے مگر انتظار تھا
مدت کے بعد پھول کی صورت کھلا تھا دل
شبنم کی طرح تازہ و تر انتظار تھا
بالوں میں دھول پاؤں میں چھالے نہ تھے مگر
پھر بھی کچھ ایک رنج سفر انتظار تھا
کوئی خبر تھی اس کی پرندوں کے شور میں
رنگ ہوا میں شاخ و شجر انتظار تھا
یوں تھی جواہرات لب و چشم کی جھلک
جیسے یہ کوئی لعل و گہر انتظار تھا
دالان و در میں ایک توقع تھی موج موج
دیوار و بام تھے کہ بھنور انتظار تھا
ایسے میں اعتبار کسی پر نہ تھا مجھے
میں بھی تھا ساتھ ساتھ جدھر انتظار تھا
آنکھیں تھیں خشک خشک تو دل بھی تھا بند بند
کھل ہی نہیں رہا تھا کدھر انتظار تھا
مایوس ہونے والے نہ تھے ہم بھی اے ظفرؔ
آیا نہیں تو بار دگر انتظار تھا