یوں تو احباب کو سب اچھا نظر آئے گا
کوئی مفلس کوئی درماندہ نظر آئے گا
پھر تمہیں میری اذیت کی سمجھ آئے گی
جب کوئی خواب تمہیں آدھا نظر آئے گا
چوک سے سیدھی گلی گھر کی طرف جاتی ہے
موڑ مڑتے ہی وہ دروازہ نظر آئے گا
تم مری آنکھ سے دنیا کو اگر دیکھو گے
پھر محبت میں بھی خمیازہ نظر آئے گا
چاندنی رات میں کچھ پریاں وہاں آتی ہیں
دیکھنے کے لیے شہزادہ نظر آئے گا
دیکھتے رہنا کہ اب میں نے سفر کرنا ہے
دیکھنے والوں کو اک سایہ نظر آئے گا
اپنی آنکھوں کو چھلکنے نہیں دینا آربؔ
ایک درویش تمہیں پیاسا نظر آئے گا