یوں تو ہیں ڈھیروں یہاں جاننے والے میرے
پر نہیں کوئی بھرے کالج میں جو میرا ہو
نہ کوئی دوست، نہ ہمدم، نہ ساتھی ،نہ رفیق
کاش پھر چل پڑے مجھ سے وہ وفاوں کا طریق
ہر کوئی اپنی ہی مستی میں یہاں گم ہے منغض
اور بتائے کیا کب کا ، کہاں گم ہے منغض
کاش آتا وہ میرے پاس جو تنہا ہوتا
اور آتے تو میرے دکھ کا مداوا ہوتا
میں تو مر جاوں تصور تیرا کیسا ہوتا
محفل میں تیرا ذکر،تیرا چرچا ہوتا
آئینہ دیکھتا تجھ کو تو وہ اندھا ہوتا
تو جو ہوتا مرے پاس تو کیا کیا ہوتا
وہ اگر ہوتا میرا ، کچھ وہ ایسا ہوتا
چاند سورج اسے دیکھ ابھرتا ہوتا
وہ جو محبوب میرا گھر سے نکلتا ہوتا
راہ کا ہر رہرو اسے غور سے تکتا ہوتا
کاش ہوتا تو میرا سب پہ یہ ظاہر ہوتا
تیری آنکھوں کو پڑھنے کا میں ماہر ہوتا