یوں خط تمھارے جانِ ادا چومتا ہوں میں
ہر ایک لفظ لفظ لِکھا چومتا ہوں میں
تم نے سجایا تھا جو مرے کمرے میں کبھی
ہر صبح وہ اٹھا کے دِیا چومتا ہوں میں
اِس نے تمھارے ہاتھوں کو چوما ہے بارہا
یوں پاؤں میں جہاں بھی حِنا چومتا ہوں میں
الفت میں اِس سے بڑھ کے سعادت ہو کیا مجھے
کہ تیرے پا کی خاک اُٹھا چومتا ہوں میں
میرے نصیب میں جو بظاہر وفا نہیں
کاغذ پہ لکھ کے لفظ وَفا چومتا ہوں میں
اوقات اپنی بھول نہ جاؤں سو اس لیۓ
ہر روز اپنی چاک قَبا چومتا ہوں میں
باقرؔ یوں تیرے نام سے رغبت ہوئی مجھے
گو ریت پر ہو نام ترا چومتا ہوں میں