یوں ہی گزر گئے تیرے شہر سے یار چلتے چلتے
گُلِ آرزو کھلے نہ کیا دیدار چلتے چلتے
بڑا ہی شباب تھا جب چلا کعبہ کی طرف
اشک آنکھوں سے گرے کئی بار چلتے چلتے
اور ہر بزم میں اپنا ہی یہ تزکرہ تھا
سنا میں نے بھی ہے بھرے بازار چلتے چلتے
تیری الفت کا طالب کس کس خیاباں سے گزرا
گیا پاؤں کے چھوڑ کر ہے آثار چلتے چلتے
آئے تھے ارمان لے کر بےقرار ہو کے نکلے
زخم مجھ کو ملے کئی ہزار چلتے چلتے
نہ کیا کبھی بھی شکوہ طبیبوں سے جا کر
جسم و جاں بھی گئے ہم ہار چلتے چلتے
کہا لوگوں نے رہے نہ اک غم تجھ کو باقی
میری قبر پہ بچھا کر گُلِ ہار چلتے چلتے
رنگ بھر دے اے مصور میری اداسیوں میں
رہا خالد میرے دل میں پھر بھی انتظار چلتے چلتے