یہ آئے روز ترے ہی خیال نوچتے ہیں
سکون سے نہیں سوتا ملال نوچتے ہیں
جواب دے نہیں پایا ابھی تلک ہی میں
کیے تھے تم نے کبھی وہ سوال نوچتے ہیں
عشاق حد سے زیادہ کبھی یہ بڑھ جائے
کہ ایسے میں سبھی عاشق تو بال نوچتے ہیں
غریب سکھ کی نہیں نیند سوتے ہیں یہ کبھی
امیر بھیڑیے بن کے ہی کھال نوچتے ہیں
یہ آدمی پیٹ کی خاطر گزرتے ہیں حد سے
اسی ہی طرح مچھیرے تو جال نوچتے ہیں
کمال کرتے ہیں انسان عشق میں شہزاد
کہ اشتیاق سے بچوں کے گال نوچتے ہیں