اے کاش کوئی آئینہ ایسا بنا سکے
لوگوں کو ان کا چہرہ جو اصلی دکھا سکے
جھلسا رہی ہے جو مرے پورے وجود کو
یہ آگ وہ نہیں جسے پانی بجھا سکے
جس نے بھی ہاتھ تھاما کہیں اور لے چلا
حسرت رہی کوئی ہمیں منزل دکھا سکے
اک عمر تیرے شہر میں ہم نے گذار دی
پھر بھی نہ تیرے دل میں کبھی ہم سما سکے
کردار پاک صاف ہو عزت اسی میں ہے
کس کی مجال ہے کوئی انگلی اٹھا سکے
ہر چیز بے وفا کی رکھی ہے سنبھال کر
شائید ایک دن وہ انہیں لینے آ سکے
وہ لاکھ بھول جائے سبھی بات کو مگر
اس کی ہے کیا مجال جو ہم کو بھلا سکے