یہ اُداس انکھیں اور آنسووں کی رم جھم
جھکی ہے گردن اور پلکیں بھی ہیں خم
لبوں پہ تالا ہے اور طوفاں ہے دل میں
مجھے بتا دو اے جان عالم
کیا ہے رسوا یوں تجھ کو کس نے
اٹھا کہ پلکیں گرا کہ انسو
پھر نگاہ حسرت سے مجھ کو دیکھا
بوجھل سے قد موں سے چل کہ آیا
رکھ کہ سر میرے کندھوں پہ اپنا
جی بھر کہ روے بلک بلک کہ
اسکا چہرا اپنے ہاتھوں میں لیکر
میلا کہ آنکھیں یوں پھر سے پوچھا
مجھے بتا دو اے جان عالم
کیا ہے رسوا یوں تجھ کو کس نے
لرزتے ہوٹوں سے کچھ یوں وہ بولا
جس کہ لیے چھوڑا تھا تجھ کو
وہ تو کسی اور کا ہے
پھرتو ہم بھی رو پڑے تھے
وہ اپنی باھوں کے گیرے میں لیکر
مناتے مناتے کچھ یوں بولا
سن اے " شاد " سلام ہے تجھ کو
اس بدلتے موسم میں تو نہ بدلا