یہ تیرے نقشِ کفِ پا جہاں تک پہنچے
ہم سجدے کرتے کرتے وہاں تک پہنچے
تیری آرزو میں تیری ہی جُستجو میں
تجھے کیا خبر ہم کہاں کہاں تک پہنچے
یہ میکدہ ہے یہاں آداب سے بیٹھو رِندو
یہ نہ ہو کہ واعظ گریباں تک پہنچے
جنہیں اُڑنا بھی نہیں آیا تھا کبھی
آخر وہ کیسے بُلندئ آسماں تک پہنچے
دل اور جاں میں لیئے ہُوئے عشق کی تپش
ہم تیری زُلفوں کے سائباں تک پہنچے
اِدھر اُدھر بِکھر چُکے تھے سارے تِنکے
امر جب پرندے اپنے آشیاں تک پہنچے