یہ جو لوگوں نے نئی بات بنائی ہوئی ہے
کون کہتا ہے تری مجھ سے جدائی ہوئی ہے
میں نہ کہتا تھا میں آنکھیں بھی پڑھا کرتا ہوں
تو نے اک بات کہیں مجھ سے چھپائی ہوئی ہے
لوگ آتے ہیں مرے گھر کی زیارت کرنے
میں نے تصویر تری گھر میں لگائی ہوئی ہے
یہ جو غم ہے نا ترے ہجر کا بکھرا ہوا غم
ہم نے اس غم سے پرے کٹیا بسائی ہوئی ہے
یہ جو ہر بات بتاتی ہیں ہوائیں تجھ کو
میں نے ہر بات ہواؤں کو سنائی ہوئی ہے
میں اکیلا تو نہیں تیرا تصور ہے یہاں
اور کمرے میں اداسی بھی بلائی ہوئی ہے
ہم کہاں وقت کے شاہوں سے تھے بکنے والے
تیری حسرت ہمیں بازار میں لائی ہوئی ہے
میں تو پہلے ہی کبھی زین نہیں تھا اپنا
اس کے جانے سے تو ہر چیز پرائی ہوئی ہے