یہ جو کتاب زندگی کی کتاب ہے وہ کتاب تم ہی کتاب ہو
جو نہ لکھ سکا میں آج تک وہ نصاب تم ہی نصاب ہو
میری دلخواه کی جو حد تھی میری چاہتوں کا جو سما تھا
میری آنکھوں میں جو شمار تھا وہ حساب تم ہی حساب ہو
چاہوں بھی تو تجھے نہ بھولا سکوں یہ بات قلبِ نَشیں رکھو
مہک رہی ہے جس سے زندگی وہ گلاب تم ہی گلاب ہو
میرا دن جو میری رات ہے ہر لمحہ اُداس اُداس ہے
جو خُمار مجھ میں بھرا ہوا وہ خُمار تم ہی خُمار ہو
میری نیند جو مجھ سے روٹھ گئی ہر جاہ ہوں تنہا تنہا
یہ جو سلسلوں کی ہے سب وجہ وہ وجہ تم ہی وجہ ہو
مجھے حاصل ہوا جو نام شاعر مجھے حاصل ہوا جو مُقام شاعر
میری شاعری جو سب نفیس ہے وہ نفیس تم ہی نفیس ہو ۔۔