کاوش ۲
یہ درد اپنا چھپانا کمال آتا ہے
یہ ہم پہ جو سدا ایسا زوال آتا ہے
ہمیں یہ ضد ہے کہ تجھ سے کبھی نہ مانگیں گے
تمارے وصل کا منظر زوال آتا ہے
پڑھا کرو اسے دل کی نگاہ سے ہر بار
تمارے نام ہی اپنا کمال آتا ہے
مرے حواس پہ چھایا ہے کتنا سناٹا
نکلنا گھر سے اپنا محال آتا ہے
نبھے گا کیسے مراسم کا سلسلہ سوچیں
تو میری مانگ ہے تیرا خیال آتا ہے
میں پیار سمجھوں اسے یا کہوں سزا کوئی
نہ پوچھ دیکھ کے کتنا ملال آتا ہے
تمھارے قرب کی حسرت کو کیا کروں آخر
کبھی نہ ایسے ملے پرسوال آتا ہے
تمھارے جانے سے جاتی ہیں میری نیندیں بھی
نشاط زیست کا رنگین سال آتا ہے
بھلا سکوں گی نہ غم مے کدے میں بھی جا کر
تو سوچتی ہوں کہ پھر بے خودی سوال آتا ہے
خوشی تو اس کے بھی ہوتے ملی نہ تھی وشمہ
گو غم گسار دکھوں پر تو ڈھال آتا ہے