یہ درد تو آنکھوں سے ہربار جھلکتا ہے
وہ درد کی صورت ہی مرے دل میں ابلتا ہے
دنیا میں رہو لیکن دنیا نہ رہے دل میں
انسان کے غم میں جو آنکھوں سے چھلکتا ہے
ذہنوں کے مراسم تھے اک ساتھ بھی ہو جاتے
جائے نہ مگر دل سے اِک پیار نکلتا ہے
آواز سماعت تک پہنچی ہی نہیں شاید
وہ ورنہ تسلی کو کچھ دیر دہکتا ہے
جب آئینے میں صورت دھندلی سی دکھائی دے
پھر دھول کی وادی سے انسان دمکتا ہے
اس میری زمیں پہ اب یہی درد کہانی ہے
کچھ قصے ہیں ماضی کے ، کچھ لوگ کڑکتا ہے
اک روز تو لوٹیں گے وشمہ تری گلیوں میں
آئیں گے قسم سے ہم ترا پیار چمکتا ہے