ہم نے سحر کو شام کیا خود سے بچھڑنا باقی ہے
یہ دن بھی تیرے نام کیا خود سے بچھڑنا باقی ہے
یاد رہی تری یہاں پھر تری یاد بھی گئی
ہم نے یہ اہتمام کیا خود سے بچھڑنا باقی ہے
یوں بھی ملے ہیں ان سے ہم تصو ر میں بار ہا
ہم نے انہیں سلام کیا خود سے بچھڑنا باقی ہے
اشکو ں سے لکھ دیا ہے شب غم کا یہ آخری خط
خط ہم نے یوں تمام کیا خود سے بچھڑنا باقی ہے
اپنی ہنسی بھی ہم نے اڑائی ہے کس قدر پھر
تیرا بھی احترام کیا خود سے بچھڑنا باقی ہے
یاد رہی تری یہاں پھر تری یاد بھی گئی
در سے ترے کلام کیا خود سے بچھڑنا باقی ہے
ان کے خطوط رکھ کے سر ہانے شب فراق میں
قاصد کو پھر سلام کیا خود سے بچھڑنا باقی ہے
وشمہ انہی کے حکم پہ چھوڑا ہے شہر کو ہم نے
صحرا میں پھر قیام کیا خود سے بچھڑنا باقی ہے