یہ دن بھی تیرے نام کیا خود سے بچھڑنا باقی ہے

Poet: وشمہ خان وشمہ By: وشمہ خان وشمہ, Manila

ہم نے سحر کو شام کیا خود سے بچھڑنا باقی ہے
یہ دن بھی تیرے نام کیا خود سے بچھڑنا باقی ہے

یاد رہی تری یہاں پھر تری یاد بھی گئی
ہم نے یہ اہتمام کیا خود سے بچھڑنا باقی ہے

یوں بھی ملے ہیں ان سے ہم تصو ر میں بار ہا
ہم نے انہیں سلام کیا خود سے بچھڑنا باقی ہے

اشکو ں سے لکھ دیا ہے شب غم کا یہ آخری خط
خط ہم نے یوں تمام کیا خود سے بچھڑنا باقی ہے

اپنی ہنسی بھی ہم نے اڑائی ہے کس قدر پھر
تیرا بھی احترام کیا خود سے بچھڑنا باقی ہے

یاد رہی تری یہاں پھر تری یاد بھی گئی
در سے ترے کلام کیا خود سے بچھڑنا باقی ہے

ان کے خطوط رکھ کے سر ہانے شب فراق میں
قاصد کو پھر سلام کیا خود سے بچھڑنا باقی ہے

وشمہ انہی کے حکم پہ چھوڑا ہے شہر کو ہم نے
صحرا میں پھر قیام کیا خود سے بچھڑنا باقی ہے
 

Rate it:
Views: 160
12 Apr, 2025