یہ مانا بن تمہیں دیکھے بھی دم میں دم نہیں ہو گا
مگر دیدار کا لمحہ بھی اس سے کم نہیں ہو گا
کدھر کی آس کہ جو آپ پر مرکوز نہ ہو گی
کہاں کا پھول کہ جو طالب شبنم نہیں ہو گا
خدا وہ وقت بھی لائے گا میرے دیس میں جاناں
کہیں دہشت نہیں ہو گی کہیں ماتم نہیں ہو گا
تھکے لمحو کہا تھا ناں؟ کہ میرے ساتھ نہ چلنا
یہ رستہ خار ہو گا اطلس و ریشم نہیں ہو گا
اڑے گا اور آب و تاب سے افلاک میں دیکھو
ہوا سے سرنگوں یہ شوق کا پرچم نہیں ہو گا
مجھے معلوم ہے اتنی بھی کیسی بے یقینی ہے
بجز تیرے کسی کے آگے یہ سر خم نہیں ہو گا
اے راز رازداناں آج تو پردہ کشائی ہو
یہ داغ ہجر ہے باتوں سے تو مدھم نہیں ہو گا
جئیں گے اس طرح کہ موت بھی نظریں چرائے گی
مریں گے اس طرح کہ زندگی کا غم نہیں ہو گا
تو پھر یہ طے ہے کہ تب تک ہمیں گردش میں رہنا ہے
یہ رشتہ“میں“ یا “تو“ سے پڑھ کے جب تک “ہم “ نہیں ہو گا