یہ زباں بے حس و حرکت رہہ گئی
میری مجھ میں کوئی فرقت رہہ گئی
کردار فضیلت میں کوئی ثابت قدمی نہ ہوئی
کسی کسی کے پاس یہ غفلت رہہ گئی
کچھ تم نے نہ چاہا کچھ ہم بھی نہ بولے
خاموشیوں میں وہ ساری حقیقت رہہ گئی
کسی چُبھن سے پھر چیخ نہ اٹھی کوئی
ضبط تشنگی کی ہمیشہ یہ عادت رہہ گئی
اپنی حالت کی شکوہ کس سے پھر کروں
جیسے قیاس دوامی کی قلت رہہ گئی
سارا یہ شہر مبالغہ آمیز نکلا تو
ان دلوں کی ناواجب قیمت رہہ گئی
ان حسرتوں کا تماشہ بہت ہوا سنتوشؔ
مگر قابل جیون کوئی ضرورت رہہ گئی