یہ زندگی تو موت سے ابتر لگے مجھے
تیرے بغیر کانٹوں کا بستر لگے مجھے
دیوار و در کے ساتھ دریچے بھی ھیں مگر
ھر شخص تیرے شھر کا بے گھر لگے مجھے
پھینکے جو تو نے پھول کسی کے خیال میں
میرے ندیم تیر وہ اکثر لگے مجھے
منزل کے پاس لٹتے ھوئے دیکھے کارواں
اب زکر وصل سے بھی یھاں ڈر لگے مجھے
یہ معجزہ جنوں کا ھے یا عشق کا کمال
دیوار اپنی راہ کی بھی در لگے مجھے
اتریں صحیفے پیار کے دل پہ ترے شان
تو کیوں نہ چاھتوں کا پیمبر لگے مجھے