اداس ہوگی بہت اب نہ مسکرا کے چلیں
یہ زندگی ہے کبھی بھی نہ آزما کے چلیں
ہر ایک راز میں پوشیدہ راز ہیں کتنے
کسی کے راز سے پردہ کبھی اٹھا کے چلیں
بسائیں ایک نگر وہ محبتوں کا یہاں
ہیں خار راہوں میں ،گل پیار کے کھلا کے چلیں
یہ سب نہ سوچوں یہی سوچنے لگی ہوں میں
کہ عام سطح پہ خود کو بھی اب لا کے چلیں
وہ اپنے پیار میں بھولیں نہ مفلسوں کو کبھی
یہ روتے چہرے ہیں مل کے ہمیں ہنسا کے چلیں
بناؤ دوست تو ان کو نہ آزماؤ کبھی
کہ دوست رہتے نہیں ہیں جو آزما کے چلیں
کبھی بھی پانہ سکو گی خدا کو تم وشمہ
نبی کے نام پہ لیکن یہ جاں لٹا کے چلیں