یہ عشق مجھے صاحبِ گفتار نہ کر دے
لفطوں کو میرے تیر یہ تلوار نہ کردے
یہ بارِ گراں وقت کا طوفان عداوت
مشہور میرا دشت میں کردار نہ کر دے
ہاتھوں سے پھسل جائے نہ یہ صبر کا دامن
ہے خوف مجھے پار یہ دیوار نہ کردے
خاموشی کا گھلنے لگا اب زہر بدن میں
یہ پھیل کے اس جسم کو بیکار نہ کر دے
کیوں خوف یہ بے نام لیے پھرتی ہے وشمہ
یہ شدت گم دردِ سے دوچار نہ کر دے