بہت سے لفظ سہانے
انگلیوں پہ پرؤئے ھوئے
جو کبھی فیس بک کی دنیا میں گئے
جہاں رنگوں سے باتیں کرتی لڑکیاں
سوچ کے دھاروں کیساتھ بہتی ھوہیں
محبتوں کی سوغاتیں لٹاتیں ھوئیں
ھواؤں کے دوش پر لہراتیں ھوئیں
ھر اک لفظ میں موتی پروتے ھوئے
غزلوں اور گیتوں پہ باتیں کرتیں
اور میں بھی محو ھو کر انکی
باتوں میں کھو سا جاتا تھا
اور پھر یہ سوچتا ۔۔۔۔۔۔۔۔
کہ یہ دیوانی لڑکیاں
جو خوابوں کی دنیا میں
نجانے کس کی تلاش میں ہیں
کس امید اور کس آس میں ہیں
شاید انہیں کوئی مل سکے گا
جو ان کی چاھت کو سمجھ سکے گا
ان معصوم تیتلیوں کو کیا خبر ھے
ہر ایک پھول پہ بھنورے کا گھر ھے
جو انکے نشانے پر آ جائیگی
بچ کر کر نہ پھر وہ جا پائیگی
کم عقل ہیں یہ سمجھتیں نہیں
تو لڑکوں کی خصلت پہ نہ کرتیں یقیں
لڑکوں کو خود پر بڑا مان ھے
یہ فیشن یہ فلرٹ انکی شان ھے
یہ غرور ہی تو لڑکوں کا شاھکار ھے
نہ ھو یہ غرور تو ہر لڑکا بے کار ھے
بہت معذرت کیساتھ عرض ھے یہ نظم کا مقصد کسی کی دل آزاری نہیں ۔ فیس بک سے دھوکہ کھائی ایک لڑکی کی سچی کہانی جو اس نے ایک چینل پر سنائی اور کہا کہ آجکل کے لڑکوں فلرٹ کے سوا کچھ نہیں آتا ۔ انکو اپنی تعلیم و تربیت پر نہیں بلکہ فلرٹی ھونے پر غرور ھے ۔ میں بہت متاثر ھوا اور ھو بہؤ وہی الفاظ نظم میں ڈھال لیے ۔ سندر خان ۔۔۔