یہ محبت کا صلہ تھا عشق کا انجام تھا
پھول کا ہنسنا ہی اس کی موت کا پیغام تھا
غم نہ دیتے آپ تو راحت سے کس کو کام تھا
زندگی کی گردشوں کے ساتھ دور جام تھا
ٹھوکریں کھاتے گئے لب پر تمہارا نام تھا
حشر کا منظر تھا راہ عشق میں جو گام تھا
آپ کیوں آنسو بہائیں میرے حال زار پر
عشق کا نکلا وہی انجام جو انجام تھا
بن گیا ہر سانس قاتل رنج ہے تو بس یہی
زندگی نے مار ڈالا موت پر الزام تھا
تھا تمہارے سامنے بے کیف رنگ گلستاں
دیدۂ نرگس تو کہنے کو چھلکتا جام تھا
دیکھنے والے کہیں گے میری بربادی کا حال
آشیانہ جل رہا تھا میں اسیر دام تھا
گریۂ شبنم سے آتی ہے گلوں میں تازگی
میرا رونا بھی کسی کے عیش کا پیغام تھا
برق کے کیا ہاتھ آیا کیا ملا صیاد کو
چار تنکوں کے نہ رہنے سے چمن بدنام تھا
جلنے والا ہی سمجھ سکتا ہے دل کی آگ کو
ہجر میں عارفؔ مرا ہمدم چراغ شام تھا