یہ محشر خیال کچھ الگ سا ہے
کہ تیرا جمال کچھ الگ سا ہے
عہد ماضی کا تعرض گذر گیا
اپنا حال بھی کچھ الگ سا ہے
انتظار کے پل کو کہدو کہ
یہ سال کچھ الگ سا ہے
ابر بہار کی آس کے بعد
وہ بدحال کچھ الگ سا ہے
اُس ناگوار سے بھی گذرا تھا
یہ محال کچھ الگ سا ہے
جہاں کے ہر روپ سے سنتوشؔ
تیرا کمال کچھ الگ سا ہے