یہ مست ادائیں تو ذہنی جانبداری سے گذرتی ہیں

Poet: Santosh Gomani By: Santosh Gomani, Mithi

یہ مست ادائیں تو ذہنی جانبداری سے گذرتی ہیں
بڑی شوخ ہوائیں میری راہ گذاری سے گذرتی ہیں

ابکہ میری آوارہ ضرورت کو تنگدستی ہو رہی ہے
یہ کون سے رعنائیں جو گریہ ذاری سے گذرتی ہیں

وہ عصا کی آتشیں جو کبھی آگاہ ہی نہیں کرتی
اِس غفلت کی نیند میں گداگری سے گذرتی ہیں

یہ عیاں کمر کا داغ کس کو اس طرح منظور رہا ہے
اس احتیاج سے بھی زیادہ چھُپکاری لے گذرتی ہیں

میرے زخموں کا زوررنج آج بھی دیکھو گھیلا پڑا ہے
درزوں کی محافظیاں پھر دنیاداری سے گذرتی ہیں

اشک جھرنوں میں کنول اب مرجھا گئے ہیں سنتوشؔ
تیری بے رخیاں اتنی ناہمواری سے گذرتی ہیں

 

Rate it:
Views: 362
08 Jan, 2011