یہ مست ادائیں تو ذہنی جانبداری سے گذرتی ہیں
Poet: Santosh Gomani By: Santosh Gomani, Mithiیہ مست ادائیں تو ذہنی جانبداری سے گذرتی ہیں
 بڑی شوخ ہوائیں میری راہ گذاری سے گذرتی ہیں
 
 ابکہ میری آوارہ ضرورت کو تنگدستی ہو رہی ہے
 یہ کون سے رعنائیں جو گریہ ذاری سے گذرتی ہیں
 
 وہ عصا کی آتشیں جو کبھی آگاہ ہی نہیں کرتی
 اِس غفلت کی نیند میں گداگری سے گذرتی ہیں
 
 یہ عیاں کمر کا داغ کس کو اس طرح منظور رہا ہے
 اس احتیاج سے بھی زیادہ چھُپکاری لے گذرتی ہیں
 
 میرے زخموں کا زوررنج آج بھی دیکھو گھیلا پڑا ہے
 درزوں کی محافظیاں پھر دنیاداری سے گذرتی ہیں
 
 اشک جھرنوں میں کنول اب مرجھا گئے ہیں سنتوشؔ 
 تیری بے رخیاں اتنی ناہمواری سے گذرتی ہیں
 
  
More Love / Romantic Poetry







 
  
  
  
  
  
  
  
  
  
  
 