یہ مُحال کی بات ہے کہ کوئی خیال ملے
سب عیاں کروں گا بس اپنا حال ملے
پچھلے رنج کو میں نے بہت اصلاح دی
کیسے درست ہوگا کہ اور ملال ملے
شیخی مارنا تو دنیا کی رواداری ہے
دیکھو دلدل سے نکل کر کوئی جمال ملے
پلٹ کر دیکھتا ہوں تو اندہیرا ہے بہت
آگے چلنے کو اتفاقاً کوئی کمال ملے
جوش دل سے پسمانندہ ہیں اب بھی
ہو سکتا ہے اس کے بعد بھی زوال ملے
ہم گذر جائیں گے لیکن ایک شرط پر
یقینی اگلے جنم میں کوئی وصال ملے