اذیّت ہوں تمھارے واسطے میں بس ملامت ہوں
تمھارے دل کی دنیا میں میں اک شہرِملامت ہوں
جہاں آتے ہوئے احساس یہ تم کو ستاتا ہے
”مری اس پاک دنیا میں گناہوں کی یہ بستی کیوں؟
میں ہوں افلاک کی باسی، فلک پر ایسی پستی کیوں؟“
تمھیں تکلیف دیتا ہوں نا میں، کتنا ستاتا ہوں
اذیّت اور اس تکلیف سے چھٹکارہ پاؤ نا
میں تم سے عشق کرتا ہوں، تو یہ بس میرا مسئلہ ہے
مرے مسئلے میں مت الجھو
الجھ بیٹھی ہو تو سلجھو
محبت گر نہیں مجھ سے تو مجھ کو بھول جاؤ نا
ستاتا ہوں تمھیں میں، تم تو خود کو مت ستاؤ نا